‎سائنسی زمرے[ترمیم]

بنیادی طور پر تو سائنس ایک منظم طریقۂ کار کے تحت کسی بات کو جاننے یا اس کا علم حاصل کرنے کو کہا جاتا ہے، اس طرح کہ اس مطالعے کا طریقہ اور اس کے نتائج دونوں ہی بعد میں دوسرے دہرا سکتے ہوں یا ان کی تصدیق کرسکتے ہوں یعنی یوں کہـ لیں کہ وہ قابل تکرار (replicable) ہوں اور اردو میں اس کو علم ہی کہتے ہیں۔ فی الحال سائنس کا کوئی ایسا ترجمہ کرنے (یا اگر کیا گیا ہے تو اس کو عام کرنے) کی کوئی باضابطہ کوشش نہیں کی گئی ہے کہ جو اس کو دیگر علوم سے الگ کرسکے اس لیے اس مضمون میں علم اور سائنس متبادلات کے طور پر استعمال کیے گئے ہیں، لہذا یوں کہ سکتے ہیں کہ مطالعہ کر کہ کسی چیز کے بارے میں جاننا (یا ایسی کوشش کرنا) یعنی علم ہی سائنس ہے۔ انگریزی میں سائنس کا لفظ لاطینی کے scientia اور اسے قبل یونانی کے skhizein سے آیا ہے جس کے معنی الگ کرنا، چاک کرنا کہ ہیں۔ مخصوص غیر فنونی علوم جو انسان سوچ بچار حساب کتاب اور مطالعہ کے ذریعہ حاصل کرتا ہے کہ لیے سائنس کے لفظ کا جدید استعمال سترہویں صدی کے اوائل سے سامنے آیا۔

بعض اوقات مندرجہ بالا تعریف کے مطابق حاصل کیے گئے علم یا سائنس کو خالص علم (pure science) بھی کہا جاتا ہے تاکہ اس کو سائنسی اطلاقات کے علم یعنی نفاذی علم (applied science) سے الگ شناخت کیا جاسکے۔

انسان کے سائنسی مطالعے کا سلسلہ زمانۂ قدیم سے جاری ہے (جس کی تفصیل تاریخ سائنس میں آجائے گی) اور زمانے کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ اور بہتری ہوتی رہی ہے جس نے سائنس کو اس کی آج کی موجود شکل عطا کی۔ آنے والے سائنسدانوں نے ہمیشہ گذشتہ سائنسدانوں کے مشاہدات و تجربات کو سامنے رکھ کر ہی نئی پیشگویاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہرحال سائنس قدیم ہو یا جدید، بنیادی ہو یا اطلاقی ایک اہم ترین عنصر جو اس سائنسی مطالعے میں شامل رہا ہے وہ اسلوب علم یا سائنسی طریقۂ کار ہی ہے۔ یہ بھی قابل غور بات ہے کہ اس سائنسی اسلوب میں بھی زمانے کے ساتھ ساتھ ترقی اور باریکیاں پیدا ہوتی رہی ہیں اور آج کوئی بھی سائنسی مطالعہ یا تجربہ اسلوب سائنس پر پورا اترے بغیر قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا۔

سائنس اور فنیات (arts) کی تفریق کچھ یوں کی جاسکتی ہے کہ فنیات میں وہ شعبہ جات آجاتے ہیں جو انسان اپنی قدرتی ہنر مندی اور صلاحیت کے ذریعہ کرتا ہے اور سائنس میں وہ شعبہ جات آتے ہیں جن میں غوروفکر، تحقیق اور تجربات کر کے کسی شے کے بارے میں حقائق دریافت کیے جاتے ہیں۔ سائنس اور آرٹس کے درمیان یہ حدِ فاصل ناقابلِِ عبور نہیں کہ جب کسی آرٹ یا فن کا مطالعہ منظم انداز میں ہو تو پھر یہ ابتدا میں درج تعریف کے مطابق اس آرٹ کی سائنس بن جاتا ہے۔

ہر قسم کے لسانی ، تہذیبی اور کسی بھی دوسری قوم کے ذہنی غلبے سے آزاد سوچ ہی سائنس پیدا کرتی ہے۔ ہزار سال قبل ، اسلوب علم کی روشنی میں تیار کیے گئے آلات جراحی جنھوں نے آج کے جدید جراحی آلات کی جانب راہنمائی کی، اسی نوعیت کے واقعات سائنس کہلائے جاتے ہیں۔ (مسلم سائنسدان، الزھراوی کی کتاب التصریف لمن عجز عن التالیف کا ایک نسخہ)۔

‎سائنسی تاریخ[ترمیم]

وسیع معنوں میں سائنس جدید دور سے پہلے اور بہت سے تاریخی تہذیبوں میں موجود رہی ہے۔ جدید سائنس اپنے نقطہ نظراور کامیاب نتائج میں نمایاں ہے: کڑے نکتہ نظر کے لحاظ سے سائنس سے مراد 'جدید سائنس' ہی لی جاتی ہے۔
سائنس کے حقیقی معنی علم کے حصول کی بجاے علم کی ایک مخصوص قسم کے ہیں۔ خصوص یہ علم کی ان اقسام میں سے ایک ہے،جسے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، قدرتی چیزوں کے کام کے بارے میں علم درج شدہ تاریخ سے طویل عرصے سے پہلے جمع کیا گیا تھا اورجو کہ پیچیدہ تجریدی سوچ کے ارتقا کا باعث بنا۔

‎سائنسی زمرے[ترمیم]

سائنس کے میدان کو عام طور پر دو بنیادی خطوط پر اسطوار کیا جاتا ہے ایک تو وہ جو فطری مظاہرات سے متعلق ہوتے ہیں اور علوم فطریہ (natural sciences) کہلائے جاتے ہیں اور دوسرے وہ کہ جو انسانی سلوک (human behavior) اور معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں اور معاشرتی علوم (social sciences) کہلاتے ہیں۔ سائنس کے ان دونوں ہی شعبہ جات کو تجربی (empirical) کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں میں ہی جو معلومات حاصل کی جاتی ہیں ان میں انسانی تجربات اور مظاہر فطرت کے بارے میں شواہدات کا ہونا لازمی قرار دیا جاتا ہے، یعنی ان معلومات کو ایسا ہونا چاہیے جو فردی نہ ہوں بلکہ بعد میں آنے والے سائنس دان یا علما بھی ان کی صحت کی تصدیق کر سکیں اور انکو اپنے مستقبل کے تجربات میں استعمال بھی کرسکیں، ہاں یہ ہے کہ ایسا کرنے کے دوران (یعنی گذشتہ تجربی مشاہدات (سائنس) کی تصدیق کے دوران) وہی ماحول لازم ہو جس میں ان تجربات کو پیش کرنے والے نے کیا تھا۔

سائنس کے مندرجہ بالا دو گروہوں (علوم فطریہ اور علوم معاشرہ) کے علاوہ ایک اور گروہ بھی ہے جو سائنس کے ان دونوں گروہوں سے مطابقت کے مقامات کے ساتھ ساتھ کچھ افتراقات بھی رکھتا ہے اور اس گروہ کو قیاسی علوم (formal science) کہا جاتا ہے جس میں ریاضی (mathematics)، شمارندی علوم، نظریۂ اطلاعات اور احصاء (statistics) جیسے شعبہ جات شامل ہوتے ہیں۔

اسلوبِ سائنس[ترمیم]

اسلوب علم اصل سائسی طریقۂ کار کو ہی کہتے ہیں جس میں فطرت (nature) کے اسرار و رموز اور مظاہر کو ایک قابل تکرار (replicable) انداز میں سمجھا جاتا ہے اور انکا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ پھر اس مطالعے کے بعد حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں پیشگوئیاں کی جاتی ہیں جو مستقبل کی راہ اور مزید تحقیق کے لیے معاون ثابت ہوتی ہیں۔

خالص سائنس کی بنیادوں پر قائم ہونے والے سائنس کے اطلاقی شعبہ جات جیسے ہندسیات اور ٹیکنالوجی وغیرہ کے امتزاج سے بننے والی اشیاء زندگی کو سہل ہیں

بعض اوقات کسی بھی ایک سائنسی مطالعے کے دوران عقلی طور پر کوئی ایک نتیجہ آنے کا امکان دوسرے کی نسبت زیادہ بھی ہو سکتا ہے لیکن ایسے مواقع پر اسلوب علم کی موجودگی کے باعث سائنس دان اس قدر باضمیر افراد کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کی ذہنی لگاوٹ یا جذبے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس سے تجربے یا اس کے نتیجے کو متاثر نہیں ہونے دیتے لہذا یہ اسلوب علم کی پیروی ہی ان کے کام کو قابل تکرار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ذاتی لگاوٹ اور کسی بھی تعصب کے رجحانات کو ختم کردینا اسلوب علم کا ایک پہلو ہے، ساتھ ہی یہ تجربی نمونے (experimental design) میں بھی معاونت اور راہنمائی فراہم کرتا ہے اور ایک آخری پیمانے کے طور پر اس میں نظرِ ھمتا (peer review) کی موجودگی ؛ تجربہ، تجربے کے طریقۂ کار، استعمال کیے جانے والے آلات و کیمیائی مرکبات اور حاصل شدہ نتائج تک ہر پہلو کو قابل اعتبار و تکرار بنانے میں نہایت اہمیت رکھتی ہے۔

اسلوبات سائنس میں ایک بہت اہم اوزار، نمونوں (models) کی تشکیل ہوتی ہے جو کسی تصور یا منصوبے کی تصویرکشی یا وضاحت کرتے ہیں۔ سائنس دان اس نمونے کی تعمیر، جانچ پڑتال اور صحت پر بہت توجہ دیتے ہیں کیونکہ اس کی مدد سے ہی اصل تجربات ممکن ہوتے ہیں اور اسی کی مدد سے ایسی سائنسی پیشگوئیاں کی جاسکتی ہیں جو قابل تکرار ہوں۔ مفروضہ (hypothesis) اسلوبات سائنس میں ایک ایسی بات کو کہا جاتا ہے جس کو ابھی تک تائید کی ناقابل تردید تجربی شہادتیں بھی میسر نہ ہوئی ہوں اور دوسری جانب اس کے غلط ہونے کے بارے میں بھی کوئی گذشتہ حتمی تحقیق نا موجود ہو، ایسی صورت میں مفروضہ، نمونے کی تیاری میں مدد دیتا ہے۔ نظریہ (theory) کو یوں بیان کرسکتے ہیں کہ یہ کئی مفروضات اور بیانات (اکثر عام طور پر مانے جانے والے) کا ایسا مجموعہ ہوتا ہے جن کو آپس میں منتطقی انداز میں جوڑا جا سکتا ہو یا جوڑا گیا ہو اور اس سے دیگر مظاہر فطرت کی وضاحت میں مدد حاصل ہوتی ہو، جیسے جوہری نظریہ۔ طبیعی قانون (physical la

Post a Comment

0 Comments